EN हिंदी
رات کو پہلو میں اک تصویر روشن ہو گئی | شیح شیری
raat ko pahlu mein ek taswir raushan ho gai

غزل

رات کو پہلو میں اک تصویر روشن ہو گئی

کامران ندیم

;

رات کو پہلو میں اک تصویر روشن ہو گئی
خواب تو دیکھا نہیں تعبیر روشن ہو گئی

اس بت کافر کو جو دیکھا بہت نزدیک سے
نقش گر کی شوخیٔ تحریر روشن ہو گئی

دشت وحشت میں غبار ناقہ لیلیٰ تو ہے
حسرت اے پائے جنوں زنجیر روشن ہو گئی

زخم نومیدی چراغاں کر رہے ہیں زیست میں
داغ کیا روشن ہوئے تقدیر روشن ہو گئی

اس کی آنکھوں میں امڈ آیا ستاروں کا ہجوم
گل کدے میں شوق کی تنویر روشن ہو گئی

آرزوئیں سب شکستہ خواب سارے منہدم
میرے گھر میں رونق تعمیر روشن ہو گئی

ساز‌ دلداری پہ نغمہ زن ہوئی شام وصال
موج گل کی خوبیٔ تقریر روشن ہو گئی

رقص فرمانے لگے سب رنج و غم سوز و الم
شمع مینا جل اٹھی تاثیر روشن ہو گئی

عمر‌ زنداں میں گزاری پر ندیمؔ اتنا تو ہے
مشعل خورشید سے زنجیر روشن ہو گئی