EN हिंदी
رات کو خواب ہو گئی دن کو خیال ہو گئی | شیح شیری
raat ko KHwab ho gai din ko KHayal ho gai

غزل

رات کو خواب ہو گئی دن کو خیال ہو گئی

صابر ظفر

;

رات کو خواب ہو گئی دن کو خیال ہو گئی
اپنے لیے تو زندگی ایک سوال ہو گئی

ڈال کے خاک چاک پر چل دیا ایسے کوزہ گر
جیسے نمود خشک و تر رو بہ زوال ہو گئی

پھول نے پھول کو چھوا جشن وصال تو ہوا
یعنی کوئی نباہ کی رسم بحال ہو گئی

تجھ کو کہاں سے کھوجتا جسم زمیں پہ بوجھ تھا
آخر اسی تکان سے روح نڈھال ہو گئی

کون تھا ایسا ہم سفر کون بچھڑ گیا ظفرؔ
موج نشاط رہ گزر وقف ملال ہو گئی