رات کی زلف کہیں تا بہ کمر کھل جائے
ہم پہ بھی چاند ستاروں کی ڈگر کھل جائے
تھک گئی نیند مرے خواب کو ڈھوتے ڈھوتے
کیا تعجب ہے مری آنکھ اگر کھل جائے
میرا سرمایہ مرے پاؤں کے چھالوں کی تپک
راستے میں ہی نہ سب زاد سفر کھل جائے
آج دریا نہیں کوزے میں سمانے والا
وقت ہے مجھ پہ مرا زعم ہنر کھل جائے
سب مسافر ہیں نئی راہ کی سب کو ہے تلاش
سب پہ ممکن تو نہیں راہ دگر کھل جائے
اپنی تنہائی میں محبوس ہوں مدت سے ندیمؔ
تو اگر ساتھ ہو دیوار میں در کھل جائے

غزل
رات کی زلف کہیں تا بہ کمر کھل جائے
ندیم فاضلی