EN हिंदी
رات کی زلف کہیں تا بہ کمر کھل جائے | شیح شیری
raat ki zulf kahin ta-ba-kamar khul jae

غزل

رات کی زلف کہیں تا بہ کمر کھل جائے

ندیم فاضلی

;

رات کی زلف کہیں تا بہ کمر کھل جائے
ہم پہ بھی چاند ستاروں کی ڈگر کھل جائے

تھک گئی نیند مرے خواب کو ڈھوتے ڈھوتے
کیا تعجب ہے مری آنکھ اگر کھل جائے

میرا سرمایہ مرے پاؤں کے چھالوں کی تپک
راستے میں ہی نہ سب زاد سفر کھل جائے

آج دریا نہیں کوزے میں سمانے والا
وقت ہے مجھ پہ مرا زعم ہنر کھل جائے

سب مسافر ہیں نئی راہ کی سب کو ہے تلاش
سب پہ ممکن تو نہیں راہ دگر کھل جائے

اپنی تنہائی میں محبوس ہوں مدت سے ندیمؔ
تو اگر ساتھ ہو دیوار میں در کھل جائے