رات کی ساری حقیقت دن میں عریاں ہو گئی
خواب کی تعبیر پڑھ کر آنکھ حیراں ہو گئی
ہر نفس سیل حوادث ہر قدم امواج غم
زندگی اس دور میں طوفاں ہی طوفاں ہو گئی
آرزو در آرزو بڑھتی گئیں محرومیاں
ہر تمنا رفتہ رفتہ دشمن جاں ہو گئی
کتنی بے معنی رفاقت ابر کے ٹکڑوں میں تھی
دیکھ کر میرے گھروندے برق و باراں ہو گئی
وہ ترے بچپن کی چنگاری بھی تھی موسم شناس
جب جواں ہونے کے دن آئے فروزاں ہو گئی
سوز دل درد جگر خون تمنا اشک غم
ایک لغزش کتنے افسانوں کا عنواں ہو گئی
غزل
رات کی ساری حقیقت دن میں عریاں ہو گئی
رونق رضا