رات کے وقت کوئی گیت سناتی ہے ہوا
شاخ در شاخ بھلا کس کو بلاتی ہے ہوا
سرد رات اپنی نہیں کٹتی کبھی تیرے بغیر
ایسے موسم میں تو اور آگ لگاتی ہے ہوا
ایک مانوس سی خوشبو سے مہکتی ہے فضا
جب تو آتا ہے بہت شور مچاتی ہے ہوا
کن گزر گاہوں کے ہیں گرد و غبار آنکھوں میں
روز پت جھڑ کے ہمیں خواب دکھاتی ہے ہوا
زندگی جلتا ہوا ایک دیا ہے انجمؔ
دیکھنا یہ ہے کہاں جا کے بجھاتی ہے ہوا
غزل
رات کے وقت کوئی گیت سناتی ہے ہوا
شہزاد انجم برہانی