رات کے سمندر میں غم کی ناؤ چلتی ہے
دن کے گرم ساحل پر زندہ لاش جلتی ہے
اک کھلونا ہے گیتی توڑ توڑ کے جس کو
بچوں کی طرح دنیا روتی ہے مچلتی ہے
فکر و فن کی شہزادی کس بلا کی ہے ناگن
شب میں خون پیتی ہے دن میں زہر اگلتی ہے
زندگی کی حیثیت بوند جیسے پانی کی
ناچتی ہے شعلوں پر چشم نم میں جلتی ہے
بھوکے پیٹ کی ڈاین سوتی ہی نہیں اک پل
دن میں دھوپ کھاتی ہے شب میں پی کے چلتی ہے
پتیوں کی تالی پر جاگ اٹھے چمن والے
اور پتی پتی اب بیٹھی ہاتھ ملتی ہے
گھپ اندھیری راہوں پر مشعل حسام زر
ہے لہو میں ایسی تر بجھتی ہے نہ جلتی ہے
انقلاب دوراں سے کچھ تو کہتی ہی ہوگی
تیز ریل گاڑی جب پٹریاں بدلتی ہے
تشنگی کی تفسیریں مثل شمع ہیں وامقؔ
جو زبان کھلتی ہے اس سے لو نکلتی ہے

غزل
رات کے سمندر میں غم کی ناؤ چلتی ہے
وامق جونپوری