رات کے پردے میں اک نور کا سیلاب بھی ہے
دشت ظلمت میں کہیں وادیٔ مہتاب بھی ہے
بہر پرسش ہی سہی آج ترا آ جانا
ایک ہی وقت میں تعبیر بھی ہے خواب بھی ہے
اصلیت دیکھ مرے چاک گریباں پہ نہ جا
عشق چاہے تو بہت صاحب اسباب بھی ہے
تو نے سوچا ہے کبھی جلوۂ ارزاں کے اسیر
جس کو مہتاب سمجھتا ہے وہ مہتاب بھی ہے
وقت کی تیز روانی سے ہے دہشت ورنہ
یہی دریا جو ٹھہر جائے تو پایاب بھی ہے
غزل
رات کے پردے میں اک نور کا سیلاب بھی ہے
مظفر ممتاز