رات کے خواب سنائیں کس کو رات کے خواب سہانے تھے
دھندلے دھندلے چہرے تھے پر سب جانے پہچانے تھے
ضدی وحشی الہڑ چنچل میٹھے لوگ رسیلے لوگ
ہونٹ ان کے غزلوں کے مصرعے آنکھوں میں افسانے تھے
وحشت کا عنوان ہماری ان میں سے جو نار بنی
دیکھیں گے تو لوگ کہیں گے انشاؔ جی دیوانے تھے
یہ لڑکی تو ان گلیوں میں روز ہی گھوما کرتی تھی
اس سے ان کو ملنا تھا تو اس کے لاکھ بہانے تھے
ہم کو ساری رات جگایا جلتے بجھتے تاروں نے
ہم کیوں ان کے در پر اترے کتنے اور ٹھکانے تھے
غزل
رات کے خواب سنائیں کس کو رات کے خواب سہانے تھے
ابن انشا