رات کے گنبد میں یادوں کا بسیرا ہو گیا ہے
چاند کی قندیل جلتے ہی اجالا ہو گیا ہے
خامشی کی آندھیاں باغی نظر آتی ہیں مجھ کو
رات کالی ہے تو سناٹا بھی کالا ہو گیا ہے
اب محبت ہے مروت ہے نہ اب انکساری
آج کے اس دور میں ہر شخص ننگا ہو گیا ہے
قصۂ ریگ رواں جب آندھیوں کی زد پہ آیا
دھند کا حیرت زدہ آسیب تنہا ہو گیا ہے
غزل
رات کے گنبد میں یادوں کا بسیرا ہو گیا ہے
پی.پی سری واستو رند