EN हिंदी
رات کے گنبد میں یادوں کا بسیرا ہو گیا ہے | شیح شیری
raat ke gumbad mein yaadon ka basera ho gaya hai

غزل

رات کے گنبد میں یادوں کا بسیرا ہو گیا ہے

پی.پی سری واستو رند

;

رات کے گنبد میں یادوں کا بسیرا ہو گیا ہے
چاند کی قندیل جلتے ہی اجالا ہو گیا ہے

خامشی کی آندھیاں باغی نظر آتی ہیں مجھ کو
رات کالی ہے تو سناٹا بھی کالا ہو گیا ہے

اب محبت ہے مروت ہے نہ اب انکساری
آج کے اس دور میں ہر شخص ننگا ہو گیا ہے

قصۂ ریگ رواں جب آندھیوں کی زد پہ آیا
دھند کا حیرت زدہ آسیب تنہا ہو گیا ہے