رات کے اندھے دریچوں کو منور دیکھتے
ہم کھلی آنکھوں سے جو خوابوں کے منظر دیکھتے
بند رکھے خود ہمیں نے جب سبھی دیوار و در
کس طرح پھر جھانک کر اس گھر کے اندر دیکھتے
کب ہمارے ہاتھ آئیں خواہشوں کی تتلیاں
عمر گزری بس یونہی رنگوں کے پیکر دیکھتے
موجۂ طوفاں میں اترے اہل دل بے اختیار
ساحلوں پر رہ گئے سارے شناور دیکھتے
زندگی کی گہما گہمی نے یہ فرصت ہی نہ دی
ہم ہتھیلی پر لکھا اپنا مقدر دیکھتے
ساحلوں کی ریت ہی سے چن رہے ہو سیپیاں
تم کبھی اکرمؔ سمندر میں اتر کر دیکھتے

غزل
رات کے اندھے دریچوں کو منور دیکھتے
پیر اکرم