رات کاٹی ہے جاگ کر بابا
دن گزارا ہے دار پر بابا
ہاتھ آیا نہ روشنی کا سراب
دور تھا چاند کا نگر بابا
اپنے مرکز سے دور ہو کر ہم
ہو گئے اور در بدر بابا
چوٹ کھا کر سنبھل نہ پائے ہم
پھول پھینکا تھا تاک کر بابا
ہم فقیروں میں مل کے بیٹھ کبھی
تخت طاؤس سے اتر بابا
راستوں کے عذاب سے ڈر کر
یوں نہ ہر ہر قدم پہ مر بابا
تھی دھنک دور آسمانوں میں
اور ہم تھے شکستہ پر بابا
غزل
رات کاٹی ہے جاگ کر بابا
حامد سروش