رات کا پچھلا پہر کیسی نشانی دے گیا
منجمد آنکھوں کے دریا کو روانی دے گیا
میں صداقت کا علمبردار سمجھا تھا جسے
وہ بھی جب رخصت ہوا تو اک کہانی دے گیا
پہلے اپنا تجزیہ کرنے پہ اکسایا مجھے
پھر نتیجہ خیزیوں کو بے زبانی دے گیا
کیوں اجالوں کی نوازش ہو رہی ہے ہر طرف
کیا کوئی بجھتے چراغوں کو جوانی دے گیا
کیوں نہ اس آوارہ بادل کو دعائیں دیجئے
جو سمندر کو خلش صحرا کو پانی دے گیا
غزل
رات کا پچھلا پہر کیسی نشانی دے گیا
اقبال اشہر