رات کا حسن بھلا کب وہ سمجھتا ہوگا
چاند بے فیض اندھیروں میں نکلتا ہوگا
چند لمحوں کی رفاقت کا اثر ہے شاید
درد میٹھا سا کہیں اور بھی اٹھتا ہوگا
ہچکیوں سے یہی اندازہ لگایا ہم نے
یاد کوئی تو دل و جان سے کرتا ہوگا
ساتھ گزرے ہوئے موسم کا تصور لے کر
بارشوں میں وہ ہر ایک سال بہکتا ہوگا
بس یہی سوچ کے ہر روز لکھا کرتا ہوں
وہ مرا غم مرے اشعار میں پڑھتا ہوگا
اس کے اشکوں کا گناہ گار میں ہو جاؤں گا
وہ مجھے یاد اگر کر کے سسکتا ہوگا
یاد ہوں گی اسے بھولی ہوئی قسمیں ذاکرؔ
وہ مرے ذکر پہ چپ چاپ ٹھہرتا ہوگا

غزل
رات کا حسن بھلا کب وہ سمجھتا ہوگا
ذاکر خان ذاکر