رات کا اپنا اک تقدس ہے سو اسے پائمال مت کرنا
جب دیے گفتگو کے روشن ہوں لوٹنے کا سوال مت کرنا
موسم یاد کا کوئی جھونکا، اب جو گزرے تمہاری خلوت سے
سوچ لینا ہمارے بارے میں، پر ہمارا ملال مت کرنا
رت جگوں کی رتیں تو خیر یوں ہی آتی جاتی ہیں، پر یہ دھیان رہے
جاگنا بھی تو اس سلیقے سے، اپنی آنکھوں کو لال مت کرنا
ہم سے درویش دنیا والوں سے، بس اسی بات پر الجھتے ہیں
وحشت جسم و جاں بڑی شے ہے خود کو آسودہ حال مت کرنا
دشت عبرت سرا میں رہنا تو سر سے سودا نکال کر رکھنا
لوگ دشمن کہیں نہ ہو جائیں کوئی ایسا کمال مت کرنا
لمحۂ ہجر اپنی وسعت میں، آپ لذت ہے، زندگی بھر کی
تم بھی خالد معینؔ یوں کرنا، عمر صرف وصال مت کرنا
غزل
رات کا اپنا اک تقدس ہے سو اسے پائمال مت کرنا
خالد معین