رات جب زخم کے آئینے سے ٹکراتی ہے
لو چراغوں کی شفق بن کے بکھر جاتی ہے
گھر کا آنگن ہو کہ صحراؤں کا سناٹا ہو
کوئی آواز تعاقب میں چلی آتی ہے
کتنا حساس ہے یہ عالم تنہائی بھی
پھول کھلتے ہیں تو زخموں سے مہک آتی ہے
ہر نئی صبح تری یاد کا آنسو بن کر
زندگی شام کی پلکوں سے ٹپک جاتی ہے
آگ لگتی ہے خیالوں کے افق زاروں میں
روشنی موم کی مانند پگھل جاتی ہے
دل کی گلیوں سے گزرتا ہے زمانہ کوئی
فکر شاعر میں کوئی رات مہک جاتی ہے
سوچتے چہروں پہ صدیوں کی تھکن ہے ثاقبؔ
جاگتی آنکھوں میں اب نیند کہاں آتی ہے

غزل
رات جب زخم کے آئینے سے ٹکراتی ہے
میر نقی علی خاں ثاقب