EN हिंदी
رات اتنی جا چکی ہے اور سونا ہے ابھی | شیح شیری
raat itni ja chuki hai aur sona hai abhi

غزل

رات اتنی جا چکی ہے اور سونا ہے ابھی

منیر نیازی

;

رات اتنی جا چکی ہے اور سونا ہے ابھی
اس نگر میں اک خوشی کا خواب بونا ہے ابھی

کیوں دیا دل اس بت کمسن کو ایسے وقت میں
دل سی شے جس کے لیے بس اک کھلونا ہے ابھی

ایسی یادوں میں گھرے ہیں جن سے کچھ حاصل نہیں
اور کتنا وقت ان یادوں میں کھونا ہے ابھی

جو ہوا ہونا ہی تھا سو ہو گیا ہے دوستو
داغ اس عہد ستم کا دل سے دھونا ہے ابھی

ہم نے کھلتے دیکھنا ہے پھر خیابان بہار
شہر کے اطراف کی مٹی میں سونا ہے ابھی

بیٹھ جائیں سایۂ دامان احمدؐ میں منیرؔ
اور پھر سوچیں وہ باتیں جن کو ہونا ہے ابھی