رات چھلکی شراب آنکھوں میں
مہکے سارے ہی خواب آنکھوں میں
دیکھو تم ایسا کچھ نہیں کہنا
ہوں جو نیندیں خراب آنکھوں میں
سچ کہوں تم نے وہ پڑھی ہی نہیں
ہے جو لکھی کتاب آنکھوں میں
کیا کہیں تیری اس ادا کو ہم
دیتے رہنا جواب آنکھوں میں
تم نے جس دن سے مجھ کو چاہا ہے
کھل اٹھے ہیں گلاب آنکھوں میں
منتظر ہوں تیری نگاہوں کی
بن کے رہنا نواب آنکھوں میں
اے رتنؔ تجھ سے التجا ہے یہی
اوڑھے رہنا نقاب آنکھوں میں

غزل
رات چھلکی شراب آنکھوں میں
کرتی رتن سنگھ