رات بھر تنہا رہا دن بھر اکیلا میں ہی تھا
شہر کی آبادیوں میں اپنے جیسا میں ہی تھا
میں ہی دریا میں ہی طوفاں میں ہی تھا ہر موج بھی
میں ہی خود کو پی گیا صدیوں سے پیاسا میں ہی تھا
کس لیے کترا کے جاتا ہے مسافر دم تو لے
آج سوکھا پیڑ ہوں کل تیرا سایا میں ہی تھا
کتنے جذبوں کی نرالی خوشبوئیں تھیں میرے پاس
کوئی ان کا چاہنے والا نہیں تھا میں ہی تھا
دور ہی سے چاہنے والے ملے ہر موڑ پر
فاصلے سارے مٹانے کو تڑپنا میں ہی تھا
میری آہٹ سننے والا دل نہ تھا دنیا کے پاس
راستے میں اشکؔ بے مقصد جو بھٹکا میں ہی تھا
غزل
رات بھر تنہا رہا دن بھر اکیلا میں ہی تھا
ابراہیم اشکؔ