رات بھر کوئی نہ دروازہ کھلا
دستکیں دیتی رہی پاگل ہوا
وقت بھی پہچان سے منکر رہا
دھند میں لپٹا رہا یہ آئنا
کوئی بھی خواہش نہ پوری ہو سکی
راستے میں لٹ گیا یہ قافلا
وہ پرندہ ہوں جسے ہوتے ہی شام
بھول جائے اپنے گھر کا راستا
ہم سفر سب اجنبی ہوتے گئے
جیسے جیسے راستہ کٹتا گیا
ہم کنارے آ لگے تھک کر نویدؔ
اور دریا عمر بھر چلتا رہا
غزل
رات بھر کوئی نہ دروازہ کھلا
اقبال نوید