EN हिंदी
رات بھر درد کی برسات میں دھوئی ہوئی صبح | شیح شیری
raat bhar dard ki barsat mein dhoi hui subh

غزل

رات بھر درد کی برسات میں دھوئی ہوئی صبح

افتخار بخاری

;

رات بھر درد کی برسات میں دھوئی ہوئی صبح
سب کی آنکھوں میں ہے جیسے کوئی روئی ہوئی صبح

پاک جذبوں کے سمندر سے نتھارا ہوا نور
نیک سوچوں کی بلونی سے بلوئی ہوئی صبح

پھول بے رنگ فضا زرد پرندے خاموش
شام کی گود میں تھک ہار کے سوئی ہوئی صبح

کون دیکھے گا مرے اشک کو سورج بنتے
کون کاٹے گا مری آنکھ کی بوئی ہوئی صبح

یوں بھی لوٹیں گے وطن کو کبھی ہم ہجر نصیب
ڈھونڈھتی ہوگی ہمیں بھی کوئی کھوئی ہوئی صبح