رات بھر چاند کی گلیوں میں پھراتی ہے مجھے
زندگی کتنے حسیں خواب دکھاتی ہے مجھے
ان دنوں عشق کی فرصت ہی نہیں ہے ورنہ
اس دریچے کی اداسی تو بلاتی ہے مجھے
توڑ دیتا ہوں کہ یہ بھی کہیں دھوکا ہی نہ ہو
جام میں جب تری صورت نظر آتی ہے مجھے
دن اسی فرق کے جنگل میں گزر جاتا ہے
رات یادوں کا وہی زہر پلاتی ہے مجھے
ساتھ جس روز سے چھوٹا ہے کسی کا آذرؔ
جیسے کمرے کی ہر اک چیز ڈراتی ہے مجھے
غزل
رات بھر چاند کی گلیوں میں پھراتی ہے مجھے
کفیل آزر امروہوی