EN हिंदी
رات بھر چاند کی گلیوں میں پھراتی ہے مجھے | شیح شیری
raat-bhar chand ki galiyon mein phiraati hai mujhe

غزل

رات بھر چاند کی گلیوں میں پھراتی ہے مجھے

کفیل آزر امروہوی

;

رات بھر چاند کی گلیوں میں پھراتی ہے مجھے
زندگی کتنے حسیں خواب دکھاتی ہے مجھے

ان دنوں عشق کی فرصت ہی نہیں ہے ورنہ
اس دریچے کی اداسی تو بلاتی ہے مجھے

توڑ دیتا ہوں کہ یہ بھی کہیں دھوکا ہی نہ ہو
جام میں جب تری صورت نظر آتی ہے مجھے

دن اسی فرق کے جنگل میں گزر جاتا ہے
رات یادوں کا وہی زہر پلاتی ہے مجھے

ساتھ جس روز سے چھوٹا ہے کسی کا آذرؔ
جیسے کمرے کی ہر اک چیز ڈراتی ہے مجھے