EN हिंदी
راستے سے گئے ہٹائے ہم | شیح شیری
raste se gae haTae hum

غزل

راستے سے گئے ہٹائے ہم

نونیت شرما

;

راستے سے گئے ہٹائے ہم
پھر بھی منزل کے پاس آئے ہم

تھے حقیقت نظر نہ آئے ہم
جب ہوئے خواب جگمگائے ہم

گو چلے تھے، پہنچ نہ پائے ہم
ہم وہیں ہیں جہاں سے آئے ہم

اپنا بادل تلاشنے کے لیے
عمر بھر دھوپ میں نہائے ہم

منزلیں ان کی ہر سفر ان کا
راستے تھے بنے بنائے ہم

شور دن کا پلا گیا چپی
نیند آئی تو بڑبڑائے ہم

تیری گلیوں کو گھر کیا جب سے
زندگی کے قریب آئے ہم

ساتھ لے کر مکان کیا چلتے
گھر کو پھر گھر ہی چھوڑ آئے ہم

تجھ پہ غصہ تھے اس لیے جاناں
بے سبب خود پہ تمتمائے ہم

جب سے ہم بن گئے تری آنکھیں
دیکھ لے روز ڈبڈبائے ہم

درد کی آنچ غم کی بھٹی تھی
پھر سراپا گئے پکائے ہم