EN हिंदी
راستے پھیلے ہوئے جتنے بھی تھے پتھر کے تھے | شیح شیری
raste phaile hue jitne bhi the patthar ke the

غزل

راستے پھیلے ہوئے جتنے بھی تھے پتھر کے تھے

صدف جعفری

;

راستے پھیلے ہوئے جتنے بھی تھے پتھر کے تھے
راہزن ششدر رہے خود قافلے پتھر کے تھے

نرم و نازک خواہشیں کیا ہو گئیں ہم کیا کہیں
آرزوؤں کی ندی میں بلبلے پتھر کے تھے

اشک سے محروم تھیں آنکھیں فضائے شہر کی
جان و دل پتھر کے تھے جو غم ملے پتھر کے تھے

ہر قدم پر ٹھوکروں میں زندگی بٹتی رہی
آدمی کی راہ میں سب مرحلے پتھر کے تھے

دل دھڑک کر چپ رہا کل مصلحت کی راہ پر
سر بریدہ سیکڑوں اوپر تلے پتھر کے تھے

ریگزار زیست میں سوز سفر جاتا رہا
یوں ہوا محسوس جیسے آبلے پتھر کے تھے

لمحہ لمحہ سنگ بن کر جی رہی تھی میں صدفؔ
چاہتوں کے درمیاں جب حوصلے پتھر کے تھے