راس ہے مجھ کو شب، تنہا آوارہ چاند
سرطانی ہوں میں، میرا سیارہ چاند
ان کو شعر کروں، اندر کی بات کہوں
موسم رات گھٹا، سورج اک تارا چاند
میں نے جیتی یہ بازی، ہے رات گواہ
تھک کر پلٹا چودھویں شب، پھر ہارا چاند
لہروں لہروں پرچھائیں پامال ہوئی
دیکھ رہا ہے حسرت سے بے چارہ چاند
میں ٹھہری من جوگن شب بھر کاہے کو
ساتھ مرے پھرتا ہے مارا مارا چاند
چودھویں شب کیوں بے کل ہو اور پٹخے سر
جب تیرے ہم زاد سے کھیلے دھارا چاند
میں ڈوبی پھر ابھری آخر ڈوب گئی
موج بحر درد تھی اور کنارا چاند
غزل
راس ہے مجھ کو شب، تنہا آوارہ چاند
نکہت یاسمین گل