راحت جاں سے تو یہ دل کا وبال اچھا ہے
اس نے پوچھا تو ہے اتنا ترا حال اچھا ہے
ماہ اچھا ہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا ہے
پھر بھی ہر ایک سے کہتا ہوں کہ حال اچھا ہے
ترے آنے سے کوئی ہوش رہے یا نہ رہے
اب تلک تو ترے بیمار کا حال اچھا ہے
یہ بھی ممکن ہے تری بات ہی بن جائے کوئی
اسے دے دے کوئی اچھی سی مثال اچھا ہے
دائیں رخسار پہ آتش کی چمک وجہ جمال
بائیں رخسار کی آغوش میں خال اچھا ہے
آؤ پھر دل کے سمندر کی طرف لوٹ چلیں
وہی پانی وہی مچھلی وہی جال اچھا ہے
کوئی دینار نہ درہم نہ ریال اچھا ہے
جو ضرورت میں ہو موجود وہ مال اچھا ہے
کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیمؔ
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے
غزل
راحت جاں سے تو یہ دل کا وبال اچھا ہے
عدیم ہاشمی