EN हिंदी
راہ میں قدموں سے جو لپٹی سفر کی دھول تھی | شیح شیری
rah mein qadmon se jo lipTi safar ki dhul thi

غزل

راہ میں قدموں سے جو لپٹی سفر کی دھول تھی

رشید افروز

;

راہ میں قدموں سے جو لپٹی سفر کی دھول تھی
تم نے آنکھوں میں جگہ دی یہ تمہاری بھول تھی

عمر بھر لڑتا رہا جو وقت کی چٹان سے
کل مرے کاندھے پہ اس کی لاش جیسے پھول تھی

خیر ان باتوں میں کیا رکھا ہے قصہ ختم کر
میں تجھے ہمدرد سمجھا تھا یہ میری بھول تھی

دوستی کا حق نبھایا تیری خاطر لڑ پڑے
ورنہ سچ یہ ہے کہ اس کی بات ہی معقول تھی