راہ میں قدموں سے جو لپٹی سفر کی دھول تھی
تم نے آنکھوں میں جگہ دی یہ تمہاری بھول تھی
عمر بھر لڑتا رہا جو وقت کی چٹان سے
کل مرے کاندھے پہ اس کی لاش جیسے پھول تھی
خیر ان باتوں میں کیا رکھا ہے قصہ ختم کر
میں تجھے ہمدرد سمجھا تھا یہ میری بھول تھی
دوستی کا حق نبھایا تیری خاطر لڑ پڑے
ورنہ سچ یہ ہے کہ اس کی بات ہی معقول تھی

غزل
راہ میں قدموں سے جو لپٹی سفر کی دھول تھی
رشید افروز