راہ میں میری اگر آئے تو مر جائیں گے آپ
کیا مجھے یوں ہی نظر انداز کر جائیں گے آپ
ایک پل آسودگی کا ایک لمحہ عشق کا
مجھ سے ہم آغوش ہوتے ہی نکھر جائیں گے آپ
سطح پر مجھ کو چھلکنے کی نہ دعوت دیجئے
ایک قطرہ بھی اگر ٹپکا تو بھر جائیں گے آپ
اک ادا معصومیت اور ایک تہمت معصیت
کب تلک بچتے رہیں گے ہم کدھر جائیں گے آپ
بدشگونی کی علامت پیش خیمہ موت کا
دیکھیے ہم جان دے دیں گے اگر جائیں گے آپ
قبر جیسی نا پسندیدہ جگہ بھی ارتضٰیؔ
دل کبھی ہرگز نہ چاہے گا مگر جائیں گے آپ
غزل
راہ میں میری اگر آئے تو مر جائیں گے آپ
ارتضی نشاط