راہ جو چلنی ہے اس میں خوبیاں کوئی نہیں
روح اپنی چھوڑ کے وقت گراں کوئی نہیں
دہر ہے جلتا ہوا اور پتھروں کے آدمی
چلچلاتی دھوپ ہے اور آشیاں کوئی نہیں
اور کتنا آزمانا جو ہوا وہ خوب ہے
تم وہی ہو ہم وہی راز نہاں کوئی نہیں
ہے نیا کچھ بھی نہیں کیوں اس قدر حیراں ہوئے
ساتھ چلنے کو تمہارے اے میاں کوئی نہیں
سامنے مقتل ہوا لو فکر سے خارج ہوئے
بس یہی رستہ ہے جس کے درمیاں کوئی نہیں

غزل
راہ جو چلنی ہے اس میں خوبیاں کوئی نہیں
ارملا مادھو