راہ بھٹکا ہوا انسان نظر آتا ہے
تیری آنکھوں میں تو طوفان نظر آتا ہے
پاس سے دیکھو تو معلوم پڑے گا تم کو
کام بس دور سے آسان نظر آتا ہے
اس کو معلوم نہیں اپنے وطن کی سرحد
یہ پرندہ ابھی نادان نظر آتا ہے
بس وحی بھومی پے انسان ہے کہنے لائق
جس کو ہر شخص میں بھگوان نظر آتا ہے
آئی جس روز سے بیٹی پہ جوانی اس کی
باپ ہر وقت پریشان نظر آتا ہے
جب سے تم چھوڑ گئے مجھ کو اکیلا عنبرؔ
شہر سارا مجھے ویران نظر آتا ہے
غزل
راہ بھٹکا ہوا انسان نظر آتا ہے
ابھیشیک کمار امبر