قصوروار جو تم ہو خطا ہماری بھی ہے
دیے بجھانے میں شامل ہوا ہماری بھی ہے
بہت عزیز ہمیں تیری دوستی ہے مگر
اگر غرور ہے تجھ میں انا ہماری بھی ہے
ہمیں بھی زیب سماعت کبھی بنایا جائے
دبی دبی ہی سہی اک صدا ہماری بھی ہے
کسی نے دل پہ مرے ہاتھ رکھ کے پوچھا تھا
تری بہشت میں کیا کوئی جا ہماری بھی ہے
ہم اس زمین سے کس طرح دست کش ہو جائیں
اسی زمین کے اندر غذا ہماری بھی ہے
ہر ایک آنکھ میں خود کو تلاش کرتے ہیں
ابھی شناخت طلبؔ گم شدہ ہماری بھی ہے
غزل
قصوروار جو تم ہو خطا ہماری بھی ہے
خورشید طلب