EN हिंदी
قربتیں نہ بن پائے فاصلے سمٹ کر بھی | شیح شیری
qurbaten na ban pae fasle simaT kar bhi

غزل

قربتیں نہ بن پائے فاصلے سمٹ کر بھی

سرور ارمان

;

قربتیں نہ بن پائے فاصلے سمٹ کر بھی
ہم کہ اجنبی ٹھہرے آپ سے لپٹ کر بھی

حادثوں نے ہر صورت اپنی زد میں رکھنا تھا
ہم نے چل کے دیکھا ہے راستے سے ہٹ کر بھی

آگہی کی منزل سے لوٹ جائیں ہم کیسے
اس جگہ نہیں جائز دیکھنا پلٹ کر بھی

ہم نے لاکھ سمجھایا دل مگر نہیں مانا
مطمئن سا لگتا ہے کرچیوں میں بٹ کر بھی

دشت دل سے جو اٹھا ہو کے صورت شبنم
رہ گیا ہے پلکوں پر وہ غبار چھٹ کر بھی

پتھروں کے طوفاں میں دل نما گھروندوں نے
آزما لیا آخر خود کو آج ڈٹ کر بھی

دائروں کے راہی تھے منزلیں کہاں ملتیں
بے مراد ہیں پاؤں گرد رہ سے اٹ کر بھی