قربتیں بڑھ گئی نگاہوں کی
اب حدیں ختم ہیں لباسوں کی
دھوپ روکے کھڑی ہے کس کے لئے
یہ سر رہ قطار پیڑوں کی
اور پھیلے گا آگ کا دریا
اور جھلسے گی کھال چہروں کی
خودکشی کا سفر بھی سہل نہیں
بھیڑ سی ہے لگی سوالوں کی
کون خود میں سمو سکا ہے کبھی
وسعتیں لا زوال لمحوں کی
کب سے دہرا رہا ہوں میں مضطرؔ
ایک فہرست چند ناموں کی

غزل
قربتیں بڑھ گئی نگاہوں کی
فاروق مضطر