قربان جاؤں حسن قمر انتساب کے
عارض ہیں یا ہیں پھول شگفتہ گلاب کے
اب دن کہاں رہے وہ ہمارے ثبات کے
اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے
ہر اک ادا میں اس کی ہے قوس قزح کا رنگ
ہے گفتگو میں کتنے حوالے کتاب کے
حالات نے جھنجھوڑ کے ہشیار تو کیا
جاگے ہوئے ہیں پھر بھی تو آثار خواب کے
پھیلا چکے ہیں فرقہ پرستی کا زہر وہ
آئے ہیں سامنے جو عدد انتخاب کے
گولی سے حل نہ ہوں گے محبت سے ہوں گے حل
قضیے ہوں کاشمیر کے یا پنچ آب کے
نکلی سروں کی فصل ہے گوبھی کے کھیت سے
کھلتے جہاں یہ پھول تھے کل تک گلاب کے
پیر مغاں سے فخرؔ یہی اک سوال ہے
اوندھے ہیں آج جام و سبو کیوں شراب کے

غزل
قربان جاؤں حسن قمر انتساب کے
افتخار احمد فخر