قرب منزل ٹوٹ جائے حوصلا اچھا نہیں
فصل کو پکنے سے پہلے کاٹنا اچھا نہیں
ڈوبنے والے بھی اس کشتی کے کم شاطر نہ تھے
عادتاً کہتے رہے تھے نا خدا اچھا نہیں
غیر کو پہلے پرکھتے مجھ سے پھر منہ موڑتے
جلد بازی میں تمہارا فیصلہ اچھا نہیں
میں تو بازی ہار کر بے فکر ہو کر چل دیا
جیتنے والوں کو چسکا لگ گیا اچھا نہیں
خضر کی میراث کا وہ آج دعویدار ہے
بے چلے کہتا ہے جو کہ راستا اچھا نہیں
راستہ چلتے رہو ورنہ وفاؔ کھو جاؤ گے
اچھے خاصے سلسلے کو توڑنا اچھا نہیں
غزل
قرب منزل ٹوٹ جائے حوصلا اچھا نہیں
وفا صدیقی