EN हिंदी
قطرے گرے جو کچھ عرق انفعال کے | شیح شیری
qatre gire jo kuchh araq-e-infial ke

غزل

قطرے گرے جو کچھ عرق انفعال کے

وسیم خیر آبادی

;

قطرے گرے جو کچھ عرق انفعال کے
دریا بہا دیے کرم ذوالجلال کے

پہلو سے دل کو لے گئے وہ دیکھ بھال کے
یوسف کو لے چلے ہیں کنویں سے نکال کے

کیوں مٹی دینے آئے جو وعدہ تھا غیر سے
جاتے کہاں ہو آنکھ میں تم خاک ڈال کے

لبریز میں نے مے سے نہ دیکھا اسے کبھی
پھوٹے نصیب ہیں مرے جام سفال کے

ہے مجھ میں اور کوہ کن و قیس میں یہ فرق
میں وحشیٔ ازل ہوں یہ دیوانے حال کے

ہو طور پر عروج انہیں تو ہو غرق نیل
فرعون یہ ملا تجھے موسیٰ کو پال کے

کہتی ہے بڑھ کے زلف کمر سے دم خرام
رکھ دوں گی میں کمر کے ابھی بل نکال کے

رکھیں گی اب کہیں کا نہ پیری کی لغزشیں
رکھنا قدم وسیمؔ بہت ہی سنبھال کے