قطرہ وہی کہ روکش دریا کہیں جسے
یعنی وہ میں ہی کیوں نہ ہوں تجھ سا کہیں جسے
وہ اک نگاہ اے دل مشتاق اس طرف
آشوب گاہ حشر تمنا کہیں جسے
بیمار غم کی چارہ گری کچھ ضرور ہے
وہ درد دل میں دے کہ مسیحا کہیں جسے
اے حسن جلوۂ رخ جاناں کبھی کبھی
تسکین چشم شوق نظارا کہیں جسے
اس ضعف میں تحمل حرف و صدا کہاں
ہاں بات وہ کہوں کہ نہ کہنا کہیں جسے
یہ بخشش اپنے بندۂ ناچیز کے لیے
تھوڑی سی پونجی ایسی کہ دنیا کہیں جسے
ہم بزم ہو رقیب تو کیونکر نہ چھیڑئیے
آہنگ ساز درد کہ نالا کہیں جسے
پیمانۂ نگاہ سے آخر چھلک گیا
سر جوش ذوق وصل تمنا کہیں جسے
آسیؔ جو گل سے گال کسی کے ہوئے تو کیا
معشوق وہ کہ سب سے نرالا کہیں جسے
غزل
قطرہ وہی کہ روکش دریا کہیں جسے
آسی غازی پوری