قطرۂ آب کو کب تک مری دھرتی ترسے
آگ لگ جائے سمندر میں تو پانی برسے
سرخ مٹی کی ردا اوڑھے ہے کب سے آکاش
نہ شفق پھولے نہ رم جھم کہیں بادل برسے
ہم کو کھینچے لیے جاتے ہیں سرابوں کے بھنور
جانے کس وقت میں ہم لوگ چلے تھے گھر سے
کس کی دہشت ہے کہ پرواز سے خائف ہیں طیور
قمریاں شور مچاتی نہیں کس کے ڈر سے
چار سو کوچہ و بازار میں محشر ہے بپا
خوف سے لوگ نکلتے نہیں اپنے گھر سے
مڑ کے دیکھا تو ہمیں چھوڑ کے جاتی تھی حیات
ہم نے جانا تھا کوئی بوجھ گرا ہے سر سے
غزل
قطرۂ آب کو کب تک مری دھرتی ترسے
زاہدہ زیدی