EN हिंदी
قتل عشاق کیا کرتے ہیں | شیح شیری
qatl ushshaq kiya karte hain

غزل

قتل عشاق کیا کرتے ہیں

گویا فقیر محمد

;

قتل عشاق کیا کرتے ہیں
بت کہاں خوف خدا کرتے ہیں

سر مرا تن سے جدا کرتے ہیں
درد کی آپ دوا کرتے ہیں

آتش غم نے مگر پھونک دیا
دل سے شعلے جو اٹھا کرتے ہیں

جامۂ سرخ ترا دیکھ کے گل
پیرہن اپنا قبا کرتے ہیں

خون روتے ہیں چمن میں بلبل
ہم گلوں سے جو ہنسا کرتے ہیں

خم ابروئے صنم کو دیکھیں
ہم یہ کعبے میں دعا کرتے ہیں

اپنے ساقی کو شب فرقت میں
پانی پی پی کے دعا کرتے ہیں

روز دو چار کا خون کرتا ہے
دست و پا سرخ رہا کرتے ہیں

مر گئے پر ہدف تیر ہے خاک
جا بجا تودے بنا کرتے ہیں

دہن زخم سے ہم قاتل کے
تیغ کو چوم لیا کرتے ہیں

شور محشر سے ڈریں کیا عاشق
ایسے ہنگامے ہوا کرتے ہیں

ہوتے ہیں دل میں نہایت نادم
خون جو بے جرم کیا کرتے ہیں

مہندی ملنے کے بہانے قاتل
کف افسوس ملا کرتے ہیں

عوض بادہ غم ساقی میں
خون دل اپنا پیا کرتے ہیں

پاؤں تک ہاتھ نہ پہنچا اس کی
ہاتھ ہیہات ملا کرتے ہیں

جو ہمیں بھول گیا ہے ظالم
اس کو ہم یاد کیا کرتے ہیں

ناتوانی نے دیے پر ہم کو
جیون پر کاہ اڑا کرتے ہیں

ہم بنے چاند کے ہالے گویاؔ ہیں
گرد اس مہ کے رہا کرتے ہیں