قتل پہ تیرے مجھے کد چاہئے
خوب ہے یہ اپنے کا بد چاہئے
زلف کے کوچوں کی درازی نہ پوچھ
چلنے کو واں عمر ابد چاہئے
دل کی میں کرتا نہیں جھوٹی صلاح
مال ہے سرکار کا جد چاہئے
فوج کی ہے اشک کی حالت تباہ
آہ سے اس وقت مدد چاہئے
شیخ کی عزت ہے من الواحیات
کفش نہ ہووے تو لکد چاہئے
پشم ہے یاں مسند قاقم کا فرش
گھر میں فقیروں کے نمد چاہئے
پس رو احمد ہو کہ مرنا ہے کل
راہ نہ دیدہ کو بلد چاہئے
ہم سے یہ کیا ناخوش و قائمؔ سے خوش
جو ہو میاں حصہ رسد چاہئے
غزل
قتل پہ تیرے مجھے کد چاہئے
قائم چاندپوری