قصیدہ فتح کا دشمن کی تلواروں پہ لکھا ہے
جو ہم نے نعرۂ تکبیر یلغاروں پہ لکھا ہے
شناسائی بھی تیرے شہر میں جب اجنبی ٹھہری
تو اپنا نام ہم نے گھر کی دیواروں پہ لکھا ہے
شب غم آسماں کو تاکتا رہتا ہوں پہروں یوں
کہ جیسے گردش قسمت کا حل تاروں پہ لکھا ہے
عمل سے دوستو دنیا ہے جنت بھی جہنم بھی
نصاب زندگی انساں کے کرداروں پہ لکھا ہے
اسے پوجے ہے مضطرؔ اگتا سورج جان کر دنیا
کہ جس نے نام اپنا وقت کے دھاروں پہ لکھا ہے

غزل
قصیدہ فتح کا دشمن کی تلواروں پہ لکھا ہے
رام اوتار گپتا مضظر