قسم خدا کی بلندی سے گفتگو کرتے
اڑان بھرنے سے پہلے اگر وضو کرتے
فنا کا خوف رہا رات بھر محلے پر
فقیر گزرے تھے کل شام اللہ ہو کرتے
ہمارے سایہ زمینوں میں دھنس چکے تھے یہاں
سفر کا عزم بھلا کیسے چار سو کرتے
کسی پے دھوپ کے چلکے نہ ڈالتے ہرگز
اک آئنہ بھی اگر خود کے رو بہ رو کرتے
جھکی جبین کا معیار بڑھ گیا ہوتا
گر اپنے آپ کو مسجود قبلہ رو کرتے
ابھی ہوئی ہیں کہاں پتھروں کی برساتیں
ابھی سے پھرنے لگے کیوں لہو لہو کرتے
جو لوگ موم کی دستار باندھے پھرتے ہے
ذرا سی دیر تو سورج سے گفتگو کرتے
کرن کے دھاگے کا ہم کو اگر سرا ملتا
ہوائیں سیتے خلاؤں کو ہم رفو کرتے
نوازؔ اس لیے خاموشیوں سے لپٹے ہیں
زبان کھلتی تو پیدا نئے عدو کرتے
غزل
قسم خدا کی بلندی سے گفتگو کرتے
نواز عصیمی