EN हिंदी
قرض کیا کیا نظر پہ نکلے ہیں | شیح شیری
qarz kya kya nazar pe nikle hain

غزل

قرض کیا کیا نظر پہ نکلے ہیں

خواجہ رضی حیدر

;

قرض کیا کیا نظر پہ نکلے ہیں
جب بھی سیر و سفر پہ نکلے ہیں

جنگلوں سے گزرنے والوں کے
راستے میرے گھر پہ نکلے ہیں

نام پوچھا ہے راہگیروں نے
جب کبھی رہ گزر پہ نکلے ہیں

زخم پھوٹے ہیں جا بہ جا تن پر
کیا شگوفے شجر پہ نکلے ہیں

کیا مصیبت ہے شہر والوں پر
رکھ کے سامان سر پہ نکلے ہیں

ساتھ لے کر کتاب یادوں کی
ایک لمبے سفر پہ نکلے ہیں

دشت و صحرا سے گھوم پھر کے رضیؔ
اب شناسا ڈگر پہ نکلے ہیں