قمر بھی دور نہ تھا کہکشاں بلند نہ تھی
ہمیں کو فرش سے دوری مگر پسند نہ تھی
ذرا سی آتش غم سے چٹخ کے بجھ جاتی
مری حیات جنوں دانۂ سپند نہ تھی
لہو زمیں کے شگافوں سے بے سبب پھوٹا
فلک کی آنکھ ابھی مائل گزند نہ تھی
یہی کہ پاس تھا تقدیس بام کا ورنہ
طلب کے ہاتھ میں کیا شوق کی کمند نہ تھی
ہمارے حال پہ اہل جہاں کے ہونٹوں پر
ہنسی نہ تھی کوئی ایسی جو زہر خند نہ تھی
شگفت گل کی صدا ہو کہ گریۂ شبنم
جہاں میں کون سی آواز تھی جو پند نہ تھی
فریب دے گئی عالم کو خوئے تنہائی
مرے جنوں کی طبیعت تو خود پسند نہ تھی
زیاں تھا ناز متاع ہنر پہ اے منظورؔ
یہ چیز چشم زمانہ میں ارجمند نہ تھی
غزل
قمر بھی دور نہ تھا کہکشاں بلند نہ تھی
منظور احمد منظور