قلب و نظر کے سلسلے میری نگاہ میں رہے
مجھ سے قریب تر نہ تھے جو تری چاہ میں رہے
قہر خدا کی زد پہ کیوں آ نہ سکے سیاہ کار
کس کی سپردگی میں تھے کس کی پناہ میں رہے
صورت حال دیکھ کر سب کو ہے فکر یہ کہ اب
جسم اماں میں ہو نہ ہو کج تو کلاہ میں رہے
دار و رسن کے فیصلے سچ کے امین ہوں اگر
تھوڑی سی جرأت سخن حرف گواہ میں رہے
کوئی سبب تو تھا کہ غوثؔ فہم و ذکا کے باوجود
کار ثواب چھوڑ کر کار گناہ میں رہے
غزل
قلب و نظر کے سلسلے میری نگاہ میں رہے
غوث متھراوی