قلب و نظر کا سکوں اور کہاں دوستو
کوئے بتاں دوستو کوئے بتاں دوستو
میرا ہی دل ہے کہ میں پھرتا ہوں یوں خندہ زن
کم نہیں پردیس میں دل کا زیاں دوستو
جن میں خلوص وفا اور نہ شعور ستم
مجھ کو بٹھایا ہے یہ لا کے کہاں دوستو
چار گھڑی رات ہے آؤ کہ ہنس بول لیں
جانے سحر تک ہو پھر کون کہاں دوستو
ربط مراسم کے بعد ترک تعلق غلط
آگ بجھانے سے بھی ہوگا دھواں دوستو
لاکھ چھپو سایۂ گیسوئے شب رنگ میں
مل نہیں سکتی مگر غم سے اماں دوستو
شاعر ارشدؔ ہوں میں شاعر فطرت ہوں میں
مٹ نہیں سکتا مرا نام و نشاں دوستو

غزل
قلب و نظر کا سکوں اور کہاں دوستو
ارشد صدیقی