قلب کا احتجاج ہوتا ہے
اور کیا اختلاج ہوتا ہے
سب نتیجہ ہے اپنی کرنی کا
یہ جو دنیا میں آج ہوتا ہے
یہ بھی رنگت بدلتی ہے اپنی
لاش کا بھی مزاج ہوتا ہے
محو ہوتے ہیں عشق میں جو لوگ
ان سے کب کام کاج ہوتا ہے
بچ کے چلتا ہے ہر کوئی اس سے
شخص جو بد مزاج ہوتا ہے
مسلک عشق میں تو کثرت سے
ظلم سہنا رواج ہوتا ہے
عشق کیا ہے تمہیں یہ بتلا دوں
روگ یہ لا علاج ہوتا ہے
میرے محبوب پیرہن میں ترے
رنگوں کا امتزاج ہوتا ہے
کوئی شعبہ ہو آج کل تو شادؔ
نذر و رشوت کا راج ہوتا ہے
غزل
قلب کا احتجاج ہوتا ہے
شمشاد شاد