EN हिंदी
قلم خاموش ہے الفاظ کی تاثیر بولے ہے | شیح شیری
qalam KHamosh hai alfaz ki tasir bole hai

غزل

قلم خاموش ہے الفاظ کی تاثیر بولے ہے

رہبر جونپوری

;

قلم خاموش ہے الفاظ کی تاثیر بولے ہے
ہماری صفحۂ قرطاس پر تحریر بولے ہے

خدارا اب مجھے آزاد کر دو قید پیہم سے
مچل کر پاؤں میں لپٹی ہوئی زنجیر بولے ہے

عجب معمار ہیں جن کی سمجھ میں یہ نہیں آتا
عمارت کتنی مستحکم ہے خود تعمیر بولے ہے

یہی محسوس ہوتا ہے اجنتا کی گپھاؤں میں
کہ ہر تصویر تو چپ ہے فن تصویر بولے ہے

حقیقت مٹ نہیں سکتی بدل دینے سے تاریخیں
ہر اک فن میں ہمارا حسن عالم گیر بولے ہے

کرشمہ یہ نہیں تو اور کیا ہے خون ناحق کا
ہماری بے گناہی پر یہاں شمشیر بولے ہے

خدا بندے سے کیا پوچھے وہاں اس کی رضا رہبرؔ
ہتھیلی کی لکیروں میں جہاں تقدیر بولے ہے