EN हिंदी
قلم بھی روشنائی دے رہا ہے | شیح شیری
qalam bhi raushnai de raha hai

غزل

قلم بھی روشنائی دے رہا ہے

مصطفی شہاب

;

قلم بھی روشنائی دے رہا ہے
مجھے اپنی کمائی دے رہا ہے

میں دریا دے رہا ہوں کشتیوں کو
وہ مجھ کو نا خدائی دے رہا ہے

کوئی خاموش سا طوفاں ہوا کا
پرندوں کو سنائی دے رہا ہے

مری نظروں سے اوجھل ہے مگر وہ
جدھر دیکھوں دکھائی دے رہا ہے

شہابؔ اڑ کر چراغوں تک تو پہنچو
اگر کچھ کچھ سجھائی دے رہا ہے