قید کون و مکان سے نکلا
ہر نفس امتحان سے نکلا
میں بجھا بھی تو میرے بعد یہاں
اک دھواں کیسی شان سے نکلا
منزل گمشدہ سراغ ترا
پاؤں کے اک نشان سے نکلا
شکر ہے اس کی یاد کا پیکر
میرے وہم و گمان سے نکلا
ایک ٹھوکر پہ نور کا دریا
شب کی اندھی چٹان سے نکلا
بوکھلائی ہوا کہ طائر نو
کتنی اونچی اڑان سے نکلا
آگ پانی ہوا اور مٹی کے
آصفؔ ہر امتحان سے نکلا
غزل
قید کون و مکان سے نکلا
اقبال آصف