قید اور قید بھی تنہائی کی
شرم رہ جائے شکیبائی کی
سوجھتا کیا ہمیں ان آنکھوں سے
شرط تھی قلب کی بینائی کی
در بت خانہ سے بڑھنے ہی نہ پائے
گرچہ اک عمر جبیں سائی کی
قیس کو ناقۂ لیلیٰ نہ ملا
گو بہت بادیہ پیمائی کی
ہم نے ہر ذرہ کو محمل پایا
ہے یہ قسمت ترے صحرائی کی
وقف ہے اس کے لیے جان عزیز
کعبہ کے خادم و شیدائی کی
کعبہ و قدس میں گھر کیا یہ بھی
اک ادا ہے مرے ہرجائی کی
نظر آیا ہمیں ہر چیز میں تو
اس پہ یہ دھوم ہے یکتائی کی
عشق اور جور ستم گر کا گلہ
حد ہے اے دل یہی رسوائی کی
عشق کو ہم نے کیا نذر جنوں
عمر بھر میں یہی دانائی کی
کر گئی زندۂ جاوید ہمیں
تیغ قاتل نے مسیحائی کی
ہو نہ تقلید دلا مقتل میں
کہیں موسیٰ سے تمنائی کی
نہ سہی تیغ تجلی ہی سہی
آنکھ جھپکے نہ تماشائی کی
کل کو ہے پھر وہی زنداں جوہرؔ
ٹھیک کیا آپ سے سودائی کی

غزل
قید اور قید بھی تنہائی کی
محمد علی جوہرؔ